آگہی

Arrival

آگہی

Arrival

محبتوں کے سفر میں میں

تنہا تنہا ، تھکا تھکا

برسہا برس چلتا رہا

 

وہ بھی ملتی رہی کبھی کبھی

کبھی توتوڑ دیتی تھی

اور 

کبھی وہ

چھوڑ دیتی تھی

 

 

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی

 

سنو

تم جو ہار جائو ناں

میں دنیا سے جیت جائوں گی

 

سنو

تم جو ہار جائو ناں

میں دنیا سے جیت جائوں گی

 

میں مسکرا سا دیتا تھا

اور کہتا تھا ، کچھ بھی نہیں

بس پھر سے چلنے لگتا تھا

اور وہ 

محبتوں کے صحرا میں مجھ کو

حیرتوں سے چھوڑ دیتی تھی

 

دل کہتا بھی تھا کہ کہہ بھی دو

 

سنو 

اس نادان کو بتا بھی دو

جو میں نے ہار مان لی

تم بھی ہار جائو گی

 

پھر یوں ہوا کہ ایک دن

اس نے مجھ کو پایا تو

میں تھک کر کہیں گرا ہوا

گرد گرد تھا اٹا ہوا

جب اس نے پھر سے کہا وہی

 

سنو 

تم جو ہار مان لو 

میں دنیا سے جیت جائوں گی

 

جسم تو تھا ہی شکستہ اور

پھر نہ جانے کیا ہوا

جانے کیسے، کیوں ہوا

میں ادھ موا سا پڑا تھا جب

اس نے سمجھا مرا ہوا

 

وہ زور زور سے چلاتی تھی 

دنیا کو بتاتی تھی

 

سنو

سنو

یہ بات میری مان گیا

اس نے ہار مان لی

اس نے ہار مان لی

 

ہو کا تھا عالم اور 

بس خاموشی ہی خاموشی تھی

نہ تالیوں کی گونج  

نہ مبارکوں کے شور تھے

بس اس کے چہرے کے رنگ جو

بدلتے سے جاتے تھے

 

پھر وہ آگہی کا لمحہ جو

کبھی آیا نہ تھا 

گذر گیا

 

بہت گہرے تھے بادل جو

گھر گھر کے پھر جمع ہوئے

بہت تیز تھی بارش جو

ان بادلوں سے برسی تھی

 

وہ حقیقتوں کو پا گئی

دل سے نکلا تھا آنسو جو 

ٓآنکھوں میں جگہ بناگیا 

 

وہ میری طرف کو پلٹی اور

جھنجھوڑتی مجھ کو جاتی تھی

 بار بار  چلاتی تھی 

 

سنو

سنو 

تم اٹھو ناں

میری بات مانو ناں

اس دنیا کو ہرا دو ناں

اس دنیا کو ہرا دو ناں

 

وہ رو رہی تھی وہیں کہیں

اب زندہ مگر میں تھا نہیں

بس روح تھی مری تماش بیں 

 

شاید کہنا تو چاہتا تھا

کہہ نہیں پایا مگر

 

سنو

سنو یار

لومیں نے ہار مان لی

تم اب جیت بھی تو جائو ناں