حقیقت

حقیقت

برسوں بعد ملے 

اور میں نے پھر سے پوچھا تھا

سنو

عشق کا کوئی بھید ملا

یا

محبت کا کوئی راذ کھلا

جواب ملا تو اس طرح

عورت اورعورت میں فرق کچھ بھی نہیں ہوتا
کسی سے بھی کسی میں جدا
جڑ ا کچھ بھی نہیں ہوتا

پھر نہ جانے کیا کہا اس نے
پھر نہ جانے کیا سنا میں نے

کچھ یاد نہیں

مگر یاد رہا تو فقط اتنا 

کہ عورت اورعورت میں، فرق کچھ بھی نہیں ہوتا
کسی سے بھی کسی میں جدا
جڑ ا کچھ بھی نہیں ہوتا

ارے ہاں یاد آیا
یہ بھی تو کہا تھا کہ

محبت کچھ نہیں ہوتی
عشق، کچھ بھی نہیں ہوتا

ہاں یاد آیا
نہ جانے کیوں
پھر یہ بھی کہا تھا اس نے
ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا

عجیب بات ہے
جب عورت اور عورت میں فرق کچھ بھی نہیں ہوتا
کسی سے بھی کسی میں جدا
جڑا کچھ بھی نہیں ہوتا
جب

محبت کچھ نہیں ہوتی

اور

عشق کچھ بھی نہیں ہوتا

تو کس کو معاف کر نا ہے
کرنا بھی ہے اگر
تو کیا ہے جو معاف کر نا ہے

سنو
ارے سنو بھی تو

عشق جرم ہے جن کا
وفا قبا بھی ان کی ہے

سنو
دکھائی جو نہیں دیتی
بارش میں لگی آگ کی
ہرادا بھی ان کی ہے

سنو
سنائی جو نہیں دیتی
چودھویں کے چاند پر
سحر کو صبح میں ڈھلتے اور
سر شام سرخی کے پھیلتے
یا
کسی بھی حسین منظر میں
دل سے جو نکلتی ہے
ہر دعا بھی ان کی ہے

سنو یار
تم اتنا سوچا مت کرو
بس مزے مستی میں رہا کرو

جن کے سر میں ہے جنون عشق
اور
دل میں سودا محبت کا
سب رتبے بھی انہی کے ہیں
اور ہر سزا بھی ان کی ہے

سنو
ان لوگوں سے بچا کرو

سنو

ان لوگوں سے بچا کرو
یہ حقیقتوں کی تذلیل ہیں

لباس ان کے پھٹے ہوئے
جسم ان کے کٹے ہوئے
ان کے ہاتھ خالی مگر
کن کی صدا بھی ان کی اور
جواب صدا بھی ان کی ہے