موسم اور تتلی

A timeless narration of Love (& Life).

موسم اور تتلی

 

                 تمہارے نام

 ۔۔۔

زندگی کی طرح

              

 

موسم نام ہے رنگوں کا ۔۔۔ بدلتے رنگوں کا 

ان تتلیوں کی طرح ۔۔۔ جو کبھی اچھی لگتی تھیں 

عمر کے کسی حصے میں ۔۔۔ انہیں پکڑ کر 

کتاب میں رکھ دیا کرتے تھے 

پھر عمر کا وہ دور آیا ۔۔۔

جب کسی اور کے ساتھ ۔۔۔ مل کر پکڑا کرتے تھے

اور پکڑ کر ۔۔۔ اس کے نازک پر

ایک نازک ہاتھ میں دے دیا کرتے تھے۔ 

آج بھی اچھی لگتی ہیں۔۔۔۔۔ مگر

انہیں پکڑنے کی آرزو نہیں۔۔۔

نا معلوم کتنی تتلیاں پکڑیں ۔۔۔ دیکھیں۔۔ مگر،

            کبھی بھی دو ایک جیسی تتلیاں نہیں دیکھیں ۔

آج ۔۔۔ برسوں بعد 

وہ کتاب ملی،

جس میں رنگ برنگ کی تتلیاں ۔۔۔پکڑ کر رکھا کرتے تھے۔

اس کی گرد جھاڑ کر اسے کھولا،

بہت دیر تک صفحے پلٹتا رہا۔۔۔اور

صفحوں بیچ پڑی تتلیاں ۔۔۔ دیکھتا رہا۔

ایک سفحے پر ایک تتلی۔۔جیسے۔۔۔ چپک سی گئی تھی۔

اسے۔۔آہستہ۔۔۔آہستہ۔۔صفحے سے جدا کیا 

تو معلوم ہوا کہ اس کے ہی جیسی ۔۔ایک تتلی۔۔صفحے پر بن چکی ہے، 

                           اسی کے رنگوں میں ۔۔۔بالککل ویسی ہی ۔ 

سوچتا ہوں ۔۔ رنگ ہزار سہی،

تتلیاں۔۔ہزارہا سہی،

مگر۔۔موسم تو صرف۔۔چار ہی ہوتے ہیں۔ 

جو اڑ جاتے ہیں۔۔  تتلی کی طرح

مگر پلٹ آتے ہیں،

رنگوں کی تلاش میں۔

ایسے ہی کچھ موسم۔۔۔انسان کے اندر ہوتے ہیں۔

                                            من کے موسم۔

آج سوچتا ہوں ۔۔ تو ایسا لگتا ہے

کہ میری گرد ہوتی حیات نے بھی ۔۔۔

              صرف چار ہی موسم دیکھے ہیں۔

پہلا موسم۔۔بہت سرد تھا،

جذبوں پر برف سی پڑی تھی،

ہر چہرے پر۔۔۔پری چہرے پر،

نظر اٹھتی تھی۔۔۔جیسے

دل کو تتلی کی نزاکت کا احساس نہیں

اسے رنگوں سے مطلب ہے 

اس کی آنکھیں اچھی ہیں۔۔اس کے گال، 

اس کی باتیں۔۔۔ اس کے ہونٹ۔

خواہش تھی تو صرف اتنی

کہ ہر تتلی پکڑ کر۔۔۔

     کتاب میں قید کر لوں

اس سرد موسم میں،

عمر کا۔۔۔ایک ھصہ ٹھتھر گیا

رنگوں کی باتیں تھیں

 مگر جذبے۔۔۔ خاموش۔

دل۔ناآشنائے محبت تھا،

ہاتھوں کو پھول توڑنے کی عادت،

قدم۔۔۔کہ آوارگی راس تھی انہیں۔ 

دن یوں مٹی میں مل جایا کرتا تھا۔۔جیسے

یہ تھا ہی اسی قابل۔

مفت میں ملی چیز

جس کی قدر کا احساس نہیں۔ 

بس وقت تھا۔۔۔حیات تھی،

نہیں تھا تو احساس،

                    کسی بھی چیز کا۔ 

پھر وہ موسم آیا، 

گرمیوں کا موسم،

جس میں جذبوں پر پڑی برف۔۔۔

کچھ پگھلی،

یا شاید۔۔۔بہت پگھلی۔

یہ وہ دن تھے 

حیات کے۔۔۔جذبات کے،

دل جب تم سے مل کر۔۔۔دھڑک اٹھا تھا،

ایسے جیسے دیر بعد۔۔۔بہت دیر بعد،

کوئی بچہ ۔۔۔جیسے نیند سے جاگتا ہے،

تو کچھ دیر چپ چاپ رہتا ہے، 

گم سم سا۔

جیسے میں تھا ان دنوں،

اپنے آپ سے بے خبر۔۔۔

      ہر اک شے سے بے خبر۔

پھر بچہ رو اٹھا،

جذبات کی دنیا کا۔۔۔۔ایک بہت بڑا سچ، 

چلا اٹھا۔

عجیب سا پاگل پن تھا،

دل جس کی لپیٹ میں تھا۔

اب ہر اک چہرے پر۔۔۔ پری چہرے پر

نظر نہیں اٹھتی تھی

یا شاید اٹھتی تو تھی،

مگر نظر کچھ نہیں آتا تھا۔

اک ترے چہرے کے سوا۔

قدموں کی آوارگی بھی۔۔۔

      ترے در تک سمٹ آئی تھی۔

اب نہ انگارہ سے گالوں کی باتیں تھیں۔

نہ گلابی ہونٹوں کے قصے،

چپ سی لگ گئی تھی۔۔۔زبان کو،

ہاتھ بولا کرتے تھے

ہر وقت مٹھیوں کی صورت۔۔بند ہاتھ،

جن پر۔۔ایک نام لکھا رہتا تھا،

صرف ایک نام۔۔

جو ہزارہا بار لکھا، 

مگر ۔۔۔ دل نہیں بھرا

ہاتھوں کا۔۔ صفحہ بھی نہیں بھرا

نام۔۔ بار بار مٹتا رہا،

میں لکھتا رہا،

یہ سوچے بغیر کہ۔۔۔

           یہ مٹ کیوں جاتا ہے۔

سوچنے سمجھنے کا خیال کسے تھا،

نہ وقت ہی تھا،

گرمی ہی بہت تھی۔

برسوں میں تو برف پگھلی تھی،

ابلتے ہوئے جذبات۔۔۔دیوانہ بنائے رکھتے تھے،

آنکھیں۔۔ تمہیں دیکھنا چاہتی تھیں،

ہاتھ۔۔تمہیں چھونا چاہتے تھے،

محسوس کرنا چاہتے تھے،

شاید یقین نہیں تھا۔۔کہ وہ ایک سچ ہے،

جو حیات کی۔۔سب سے بڑی حقیقت بن گیا۔

پھر گرمی بہت بڑھ گئی،

حیات کا سورج۔شاید۔۔۔سوا نیزہ پر آگیا تھا،

میں تم سے بات کرنا چاہتا تھا،

صرف چند لفط،

اور ان کے جواب میں تم سے وہ چاہتا تھا،

جو تمہارا دل چاہے،

ہاں یا نہ۔۔۔۔

مگر نہ ۔۔قبول کسے تھی ۔

ڈر تھا اسی کا،

اسی لیئے تو بہت دن اپنے چھوٹے سے۔۔۔سوال ،

اپنے جذبات ۔۔کو لیئے گھومتا رہا،

تنہا۔۔ تمہیں حیات بنائے۔

تتلیاں تو تھیں۔۔مگر پکڑنے کا دل نہیں،

بس دل کرتا تھا

کہ وہ ایک تتلی، 

جس کے رنگ آنکھوں کو نہیں۔۔۔دل کو اچھے لگتے تھے

میرے دعا کی صورت پھیلے ہاتھوں پر،

خود ہی ۔۔۔۔۔۔اپنے حسین پر پھیلائے، 

خاموشی سے آکر بیٹھ جائے۔

      (کتنی عجیب خواہش تھی ) ۔ 

پھر وہ موسم آیا۔۔۔جس میں رنگ ملتے ہیں،

پھول کھلتے ہیں۔۔۔تتلیاں اڑتی ہیں،

  

                             بہار کا موسم۔

تم مرے ساتھ تھے۔۔۔میرے خوابوں کی طرح،

سب حقیقت تھا۔۔۔مگر۔۔۔خواب لگتا تھا،

عجب مدہوش موسم تھا،

تم تھے ۔۔۔اور صرف تم۔

پہلے پہل چھپ کر،

جیسےآمدِ بہار پر۔۔۔

کہیں کہیں۔۔۔کوئی پھول کھلتا ہے،

کوئی کوئی ٹہنی،

کوئی کوئی پتہ۔۔۔۔۔ہرا ہونے لگتے ہے۔

میرے لیئے یہ سب بہت انوکھا تھا،

میں بس ہنستا رہتا تھا،

بات۔۔۔بے بات،

معصوم بچے کی طرح،

جسے روتے روتے۔۔۔کوئی گدگدا دیتا ہے۔۔۔

اور وہ ہنسنے لگتا ہے۔

مجھے میرے جذبات گدگدا رہے تھے،

یا شاید تم تھے میرے اندر۔۔۔جذبوں کے نام پر،

                                   ہاں شاید تم ہی تھے۔

بہت سے پھول تھے اس موسم میں،

مگر اس سے کہیں کم،

جو تمہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔جو تمہیں دیئے،

حیات تمہارے رنگ و روپ میں ڈھل گئی تھی۔

وہ رنگ اچھا لگتا تھا۔۔۔جو تمہیں پسند تھا،

وہ بات اچھی لگتی تھی۔۔۔جس میں تمہارا نام آئے،

ہر وہ چیز اچھی لگتی تھی ۔۔۔جو تمہیں پسند ہو،

                                         اچھی لگتی ہو۔

عجیب موسم تھا، 

تم ہی اندر تھے۔۔۔تم ہی باہر بھی۔

تم سے باتیں تھیں۔۔۔

حیات سے لمبی،

کبھی دن میں۔۔۔کبھی رات میں۔

کبھی خط کی صورت۔۔۔

کبھی آواز۔۔۔اور کبھی۔۔۔چپ کی زباں۔

حیات جیسے رک سی گئی تھی۔

کچھ تھا بھی تو نہیں اس میں۔۔ تم بن

کہ اس کے گزرنے کا احساس ہوتا۔

ہاں مگر۔۔۔ احساس ضرور تھا

اسی لیئے تو لوگ،

میرے لفظوں کو ۔۔

      شاعری کہا کرتے تھے۔

میں کیا کرتا 

کہ تمہاری آنکھوں میں دن،

تمہاری زلفوں میں رات۔۔۔سمٹ آئے تھے۔

پھولوں کا موسم تھا۔۔۔پھول تو اچھے لگنے تھے۔

خوشبو تھی ۔۔جو سانس بھی روکو ۔۔ تو روح میں اترتی چلی جائے۔

پاگل لوگ،

جو مجھے پاگل کہا کرتے تھے۔۔۔

          شاعر کہا کرتے تھے۔

یہ تتلیوں کا موسم تھا، 

ان تتلیوں کا جو تنہا نہیں،

کسی کتاب میں رکھنے کے لیئے نہیں ،

تمہارے ساتھ مل کر۔۔۔تمہارے لیئے پکڑیں

اور جنہیں پکڑ کر۔۔جب میں،

تتلی کے پروں کی طرح۔۔نازک،

تمہارے ہاتھوں میں دیا کرتا تھا،

تو تم تھوڑی دیر۔۔۔انہیں پکڑے رکھ کر،

اس کے رنگوں۔۔۔اس کی نزاکت کی بات کر کے 

انہیں اڑا دیا کرتی تھیں۔ 

ہم پھر پکڑا کرتے تھے۔

تم پھر اڑا دیا کرتے تھے۔

پھر تم بھی اڑ گئے۔۔۔

              تتلی کی طرح۔

بہت عرصے بعد احساس ہوا،

وقت کے گزرنے کا۔

بہار کا موسم ۔۔۔جتنا بھی سندر سہی،

یہ بھی تو گزر ہی جاتا ہے۔

رنگ سمٹ جاتے ہیں،

خزاں کے رنگ میں،

پھول بکھر جاتے ہیں،

ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں۔

جذبے خشک ہونے لگے۔۔۔

              خلش بن گئے۔

ہاں اب خزاں کا موسم ہے،

تم نہیں ہو،

تمہاری یادیں ہیں،

تم نہیں ہو ۔۔۔۔۔

        میں ہوں۔

تمہارے جانے کا دکھ

نہ تو کم ہو سکتا تھا،

نہ ہی برسوں میں ہوا ہے۔

شب و روز۔۔۔ جل رہے ہیں

دیواروں سے۔۔۔ سر ٹکراتا ہوں

کڑی دوپہروں میں ۔۔۔تمہیں تلاش کرتا ہوں 

ان گلییوں میں ،

جہاں ہم ایک ساتھ چلتے تھے۔۔۔۔ہم قدم،

ان درختوں کی چھائوں میں ،

جہاں ہم۔۔۔

کبھی صبح، کبھی دوپہر، کبھی شام میں۔۔۔

بیٹھا کرتے تھے۔

    مگر ان باتوں کا ۔۔۔خیال ہی کسے تھا۔

تتلیاں اب بھی اڑتی ہیں

مگر۔۔۔انہیں پکڑنے کو۔۔دل نہیں کرتا۔

حیات کے رنگ ہی اڑ گئے ہیں۔۔تمہاری صورت،

ہاں حیات کے سب رنگ۔۔۔تم ہی میں سمٹ آئے تھے،

اور تم بھی اڑ گئے۔۔۔تتلی کی طرح۔

میری چٹکی میں ہوا بھی نہ آئی۔

آنکھیں اوپر کیئے۔۔تمہیں ڈھونڈتا ہوں،

      مگر ۔۔ہوا میں۔۔۔نشان کہاں ہوتے ہیں۔

لگتا ہے اب حیات یونہی گزر جائے گی ۔۔

اسی موسم میں،

خزاں کے موسم میں۔

من کا یہ موسم اب کبھی نہیں بدلے گا

تم کبھی بھی واپس۔۔ نہیں لوٹو گے

میری دعائیں۔۔۔ بے اثر رہیں گی۔

نا معلوم۔۔۔ تم مانگتے بھی ہو۔۔۔ یا نہیں!

مانگتے بھی ہو تب بھی۔۔

بہت وقت گزر گیا

باہر بے شمار موسم آکر جا چکے،

مگر اب اپنے اندر ایک ہی موسم ہے،

                  خزاں کا موسم۔

باہر بدلتے یہ موسم ۔۔۔کچھ اور لوگوں کو۔۔۔

اپنے رنگ دکھاتے ہیں ،

ان پر ۔۔۔اپنے رنگ چڑہاتے ہیں ۔

میں تو۔۔۔سب موسم دیکھ کر آیا ہوں،

ہر موسم کے رنگ ہیں مرے اندر،

سوچتا ہوں

“کیا میرے لیئے۔۔ اب بھی موسم بدلے گا؟”

بدلے گا تو کس رنگ میں؟

شاید مرے من کا یہ موسم ۔۔۔خزاں کا موسم ،

اب کبھی نہیں بدلے گا،

ہاں شاید ۔۔۔۔کبھی نہیں۔

شاید میں وہ صفحہ ہوں ،

جس پر ایک تتلی جڑ گئی تھی،

وہ الگ تو ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر

اس کے رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انمٹ رنگ

صفحے پر رہ گئے۔

ہاں اب یہ موسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی نہیں بدلے گا”۔”

 

 

ہمیں جو راستے بلاتے ہیں

سنا ہے، تھکتے جاتے ہیں

 

ندیم