قیدی نمبر 387

قیدی نمبر 387

برسوں سے مقید تھی

میری روح کے اندر ہی

ایک لڑکی جس کا شریر کہ

کئی سمندر کی مسافت تھا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی

“سنو مجھ کو جانا ہے”

میں خاموش تکتا رہتا تھا

روح کے اس پنجرے کو

کھلا جو بظاہر تھا

قید کی یہ صورت بھی

کیا ہی خوبصورت تھی

۔

۔

۔

نہ جائے کیا ہی سوچ کر

اک دن اس ہی کی خاطر سے

اس سے کچھ کہا تو یوں

تم ادھوری ہو جہاں بھی ہو”

تمہیں کیوں یہ لگتا ہے

کہ ادھورا پن یہ آدھا ہے

سنو یہ زندگی مکمل ہے

یہ ادھورا پن ہی جیون ہے

“تمھارا بھی اور میرا بھی

۔

۔

۔

اس کی تھی مگر پھر بھی

وہی ضد اور ضد وہی

“کہ” اس طرح تو اچھا نہیں

بارہا کہا میں نے

! کون ہے جو پورا ہے”

چاند بھی ادھورا ہے

ان راستوں کا حاصل تو

بس یہی تلاش مسلسل ہے

دل مانتا نہیں لیکن

“سنو، یہ زندگی مکمل ہے

۔

۔

۔

سنو

!سنو

دل نے یہ کہا مجھ سے

خود غرضی مجھ میں رہتی ہے”

تم پیار جس کو کہتے ہو

بلا کی یہ خودغرضی ہے

غور سے تم دیکھو تو

اک ذرا سا جھا نکو تو

بات میری مانو تو

سنو اس کو جا نے دو

اب خود سے اسے مل جا نے دو

پیار جس کو کہتے ہیں

یہ اک جہد مسلسل ہے

تم کہتے تو ہو مگر

مانتے نہیں لیکن

تم جو نامکمل ہو

بس یونہی تم مکمل ہو

ازل کے سارے پنوں پر

بس اس ہی طرح سے لکھا ہے

کیا کیوں کو چھوڑو تم

جلنا ہے تو جلنا ہے

“ہاں ہمیشہ اور ہمیشہ تک

 ۔

۔۔

۔

آواز گو کہ اندر تھی

لگا یوں کہ اپنی تھی

سچی بھی تو تھی شاید

بری بہت لگی لیکن

برسوں تک پھر سوچ کا

ایک کرب بھرا سفر رہا

دل جیت گیا اور ہار گیا

ہر صدمہ بہت ہی بار گیا

اس سارے کھیل تماشے میں

میرا رواں رواں ساڑ گیا

 ۔

۔

۔

اس شورش مسلسل میں

بہت سی آوازیں تھیں

سب اپنی تھیں، تمہاری بھی

میں کس قدر اکیلا تھا

رواں رواں تھا خلش لیکن

میں بات تمہاری مان گیا

نہ جانے کیوں

نہ جانے کب

 ۔

۔

۔

اک اور ہی قیامت تھی

یہ جو رہائی کی اجازت تھی

تمہارے دل میں اک ذرا سی

میری جو امانت تھی

جانے کتنی گہری تھی

 ۔

۔

۔

ہزاروں سال کے معرکے سے

تھک ٹوٹ کے ہم گرے تھے جب

اک درد کا تھا سمندر اور

جانےکس کے ہاتھوں پر

نہ جانے خون کس کا تھا

اب خاموش کیوں ہو، بولو بھی

اب خاموش کیوں ہو، بولو بھی

اب خاموش کیوں ہو، بولو بھی

کیا راستہ کہیں کو کوئی بھی

یہاں سے نہیں جاتا

 خاموش کیوں ہو، بولو ناں

کچھ تو

کچھ تو