مقدس
برسوں کا تھا یارانہ
اک دور کا تھا رشتہ بھی
مشکل تو تھا مگر
ملنے تو جانا تھا
اس کو ہوا تھا کینسراور
وہ بھی کچھ فلمی سا
دیر سے تھا پتا چلا
محبت کی طرح
وہ کسی نے لکھا تھا ناں
“مجھے جس روز اس سے محبت ہوئی،
اسے مرے تیسرا دن تھا۔”
کینسر کا سٹیج تھا “چار”اور
بس کچھ ہی دنوں کی بات تھی
یعنی
جو دم تھا ، غنیمت تھا
ملنے گیا تو
دروازہ نواسی نے کھولا اور
بیٹا کمرے کو لے کر چلا
تھا کوئی تو بستر میں
خود اپنی ہی پرچھائیں سا
زندگی سے تھکا تھکا
سانسوں کا میلا لگا ہوا
درد کا ریلا لگا ہوا
اس نے ، پہچانا بھی
درد میں ، مسکرایا بھی
اور بھی تھے کچھ لوگ وہاں
الوداعی تھی تقریب مگر
سب حوصلے کی باتیں تھیں
کچھ گول مول سی بات کی میں نے
اور کچھ ہی دیر میں جانا چاہا
اس نے روکا
میں جا نہیں پایا
جب آتے جاتے لوگوں سے
میسر ہوئی تنہائی تو
پھر سے پرانے قصے تھے
اور پھر سے
وہ تھی ، وہ تھا
اور ہاں
دل میں کہیں
تم تھیں ، میں تھا
وہ۔۔
میں اس سے کبھی ملا نہیں
مگر وہ تھی
اس کے دل میں، زندہ کہیں
اس کو تھی امید کہ گر
اس کو کوئی بتلائے تو۔۔۔
اور وہ ملنے آئے تو۔۔۔
کیا اب بھی اس کو بائیک پر وہ
شہر گھمانے جا پائے گا؟
کیا اب بھی وہ اس کے لیئے
تیز نمک کا ، تیکھا کھانا
اپنے نازک ہاتھوں سے۔۔۔
بنا کر
اوپر نیچے رکھنے والے
چمکتے اسٹیل کے ڈبوں میں
پھر سے لے کر آئے گی؟
اور اسے
پھر سے
اپنے ہاتھوں سے کھلائے گی؟
ہاں اور یہ بھی تو ممکن ہے۔۔۔
اور یوں بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔
وہ خواب بنتا رہا
میں سنتا رہا
باتیں کرتے کرتے اس کی
پلکیں ہوئیں بوجھل اور وہ
مدہوش ہوا؟ خاموش ہوا؟
نہ جانے کون سی حالت تھی؟
میں بس چپ چاپ چلا آیا
سنو
مگر اک بات جو میں نے جانی ہے
اور وہ یہ ہے کہ
یہ جو کینسر ہے ناں
جسم کی حد میں
چاہے کتنا پھولے
کتنا ہی پھیلے
یہ دل کی چار دیواری میں
داخل ہو سکتا ہی نہیں ہے
سنو
تم جانتی ہو ناں ایسا کیوں؟