ایکسیڈینٹ
اے شہر کراچی ، تیرے نام
ایکسیڈینٹ
سنو،
شہر بھی وہی
سڑکیں بھی
میں بھی وہی
اور وہی تھی موٹر سائیکل بھی
وہ جو ٹیوشنیں پڑہا کر اور
بہانے بنا کر اور
منتوں مرادوں سے
تم جانتیں نہیں شاید
وہ خریدی تو کیوں خریدی تھی
کیونکہ، تم۔۔تم۔۔تم۔۔
میں سوچتا رہا اور
خود کو روکتا رہا اور
کئی بار خود سے بات کی
سنو
مگر یہ کمبخت دل۔۔۔۔
مگر یہ کمبخت دل
پھر میں تھا
پھر سے اسی شہر میں اور
ٹوٹی پھوٹی سڑکیں تھیں
اور وہی تھی موٹرسائیکل بھی
ہم چل پڑے اور
چلے گئے
کئی جگہ اور
جگہ جگہ
وہ جو بس سٹاپ تھا ناں
تھا تو بالکل ویسا ہی
مگر، تم۔۔تم۔۔تم۔۔
وہ جو چاند رات ۔۔
اور دوکان چوڑیوں کی تھی
سب وہیں پہ تھا مگر۔
سنو
یہ چاند رات پر چوڑیوں کا
سلسلہ ہے اب تک جڑا ہوا
مگر،تم۔۔تم۔۔تم۔۔
وہی گھر،
وہی بالکنی،
وہی رات کا سمے،
مگر، تم۔۔تم۔۔تم۔۔
نہ جانے کب الجھ گئے
تمہارے بال جو کہ سلکی تھے
مرے الجھے ہوئے خیالوں سے
پھر نہ جانے کیا ہوا
پتہ ہی نہیں چلا
بس اک حادثہ
ہوا اور آکے گزر گیا
شاید،
تمہارے بنا اکیلا میں
میری موٹر سائیکل کو
کچھ اچھا نہیں لگا